پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا
کیسے امٹ نقوش کوئی چھوڑتا گیا
سمٹا ترا خیال تو گل رنگ اشک تھا
پھیلا تو مثل دشت وفا پھیلتا گیا
سوچوں کی گونج تھی کہ قیامت کی گونج تھی
تیرا سکوت حشر کے منظر دکھا گیا
یا تیری آرزو مجھے لے آئی اس طرف
یا میرا شوق راہ میں صحرا بچھا گیا
وہ جس کو بھولنے کا تصور محال تھا
وہ عہد رفتہ رفتہ مجھے بھولتا گیا
جب اس کو پاس خاطر آزردگاں نہیں
مڑ مڑ کے کیوں وہ دور تلک دیکھتا گیا

غزل
پتھر میں فن کے پھول کھلا کر چلا گیا
حفیظ تائب