پس دیوار زنداں زندگی موجود رہتی ہے
اندھیری رات میں بھی روشنی موجود رہتی ہے
سر دربار و مقتل ایک سا موسم انا کا ہے
گراں سر میں ہمیشہ سرکشی موجود رہتی ہے
رواں رکھتے ہیں ہم کو دشت دریا دھوپ دروازے
سرابوں سے سفر میں تشنگی موجود رہتی ہے
نظر سے جوڑ رکھتا ہے یہ دل ایسے بھی نظارے
کہ بعد از مرگ بھی حیرانگی موجود رہتی ہے
بہت آسان راہیں بھی بہت آساں نہیں ہوتیں
سبھی رستوں میں تھوڑی گمرہی موجود رہتی ہے
مری سوچوں میں یوں رچ بس گئے ہیں شبنمی موسم
تواتر سے تہ مژگاں نمی موجود رہتی ہے
تلاطم میں سدا رہتی ہیں کرنیں حسن تاباں کی
نصیب دشمناں کچھ برہمی موجود رہتی ہے
نکل پاتا نہیں میں کوچۂ بے نام سے عظمیؔ
کہ اسباب سفر میں کچھ کمی موجود رہتی ہے

غزل
پس دیوار زنداں زندگی موجود رہتی ہے
اسلام عظمی