پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا
وہ کیا کہیں جنہیں ہجرت نے گھر سے دور کیا
یہی بہت ہے کہ اس عہد بے پیمبر میں
کہیں چراغ کہیں خواب نے ظہور کیا
یہ میرا خاک میں ملنا بسا غنیمت ہے
کہ میں نے عجز کی خاطر بہت غرور کیا
فلک سے پھینک کے دیکھا کہ ٹوٹنے کا نہیں
گرا کے اپنی نگاہوں سے چور چور کیا
غبار در بدری جس نے کر دیا مجھ کو
مسافروں کو اسی دھوپ نے کھجور کیا
غزل
پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا
عباس تابش