پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
ہم لاکھ بدل جائیں مگر دل تو وہی ہے
موضوع سخن ہے وہی افسانۂ شیریں
محفل ہو کوئی رونق محفل تو وہی ہے
محسوس جو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا
دل اور نظر میں حد فاضل تو وہی ہے
ہر چند ترے لطف سے محروم نہیں ہم
لیکن دل بیتاب کی مشکل تو وہی ہے
گرداب سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں ہم
ڈوبی تھی جہاں ناؤ یہ ساحل تو وہی ہے
لٹ جاتے ہیں دن کو بھی جہاں قافلے والے
ہشیار مسافر کہ یہ منزل تو وہی ہے
وہ رنگ وہ آواز وہ سج اور وہ صورت
سچ کہتے ہو تم پیار کے قابل تو وہی ہے
صد شکر کہ اس حال میں جیتے تو ہیں ناصرؔ
حاصل نہ سہی کاوش حاصل تو وہی ہے
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
ناصر کاظمی