پردۂ درد میں آرام بٹا کرتے ہیں
اس کی درگاہ میں انعام بٹا کرتے ہیں
باب ساقی پہ الٰہی مرا سورج ڈوبے
شام ہوتے ہی جہاں جام بٹا کرتے ہیں
اس کے در پر مجھے اے گردش قسمت لے چل
سب نکموں کو جہاں کام بٹا کرتے ہیں
پیاس میں دیدۂ درویش نے تعلیم یہ دی
میکدے جاؤ جہاں جام بٹا کرتے ہیں
دل مضطر کو تسلی وہی دے گا مضطرؔ
جس کی درگاہ میں آرام بٹا کرتے ہیں

غزل
پردۂ درد میں آرام بٹا کرتے ہیں
مضطر خیرآبادی