پرائی آگ میں جلنے کی آرزو ہے وہی
بدل گیا ہے مگر وحشتوں کی خو ہے وہی
وہ شہر چھوڑ کے مدت ہوئی چلا بھی گیا
حد افق پہ مگر چاند روبرو ہے وہی
زمانہ لاکھ ستاروں کو چھو کے آ جائے
ابھی دلوں کو مگر حاجت رفو ہے وہی
قریب تھا تو سبھی اس سے بے خبر تھے مگر
چلا گیا ہے تو موضوع گفتگو ہے وہی
غزل
پرائی آگ میں جلنے کی آرزو ہے وہی
خلیل تنویر