پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے
نگاہ شوق کیا ماری پڑی ہے
مزے لوٹو کلیم اب بن پڑی ہے
بڑی اونچی جگہ قسمت لڑی ہے
گلوں کی خوش نما بدھی پڑی ہے
ترا قد کیا ہے پھولوں کی چھڑی ہے
نگاہ شوق بھی نٹ کھٹ پڑی ہے
کسی سے طور پر جا کر لڑی ہے
کڑی ہے چوٹ یہ بے شک کڑی ہے
عدو ہے اور پھولوں کی چھڑی ہے
عدو کے واسطے دنیا کا ہے عیش
مصیبت میرے حصے میں پڑی ہے
ہوا سے تیز آتے ہیں ترے تیر
کماں کی طرح چٹکی بھی کڑی ہے
مزے میں رنگ میں تیزی میں ساقی
مئے تسنیم کیا پھیکی پڑی ہے
کرامت ہے سر ناصح کی یہ بھی
کہ اچھے ہاتھ کی اچھی پڑی ہے
یہ کس نے پھول ڈالے ہیں لحد پر
جدا ہر پنکھڑی سے پنکھڑی ہے
لب جاناں نے دی تسکیں دم نزع
ہماری جان میں جاں اب پڑی ہے
کہاں بجلی میں یہ بیتابیاں تھیں
دل مضطر کی پرچھائیں پڑی ہے
نہ دشمن کے چبھا خار اس گلی میں
ہمارے واسطے سولی کھڑی ہے
جو لو کروٹ تو میں سمجھوں شب ہجر
یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے
ترے قد نے اسے سیدھا بنایا
قیامت ہے کہ سکتے میں کھڑی ہے
قضا کا بھی پڑا ہے مجھ کو رونا
برابر میرے وہ بسمل پڑی ہے
یہ کیا اندھیر ہے صبح شب وصل
نہ سرمہ ہے نہ مسی کی دھڑی ہے
پٹک کر جام مے ہم کب رہے پاک
کہ اڑ کر چھینٹ دامن پر پڑی ہے
ڈراتے ہیں کہ اس سے ڈرتے رہنا
بڑی کلجبھی مسی کی دھڑی ہے
ہوا بھاری میں ایسا نخل گل پر
مرے سائے سے ڈالی پھٹ پڑی ہے
کفن کا گوشۂ دامن تو الٹو
یہ حسرت منہ لپیٹے کیوں پڑی ہے
نہ موسی ہیں نہ ہے برق سر طور
نئے تم ہو نئی ہم پر پڑی ہے
لگا دیتا کوئی مٹی ٹھکانے
ریاضؔ اک آرزو مردہ پڑی ہے
غزل
پرا باندھے صف مژگاں کھڑی ہے
ریاضؔ خیرآبادی