EN हिंदी
پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا | شیح شیری
palkon pe sitara sa machalne ke liye tha

غزل

پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا

شمیم روش

;

پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا
وہ شخص ان آنکھوں میں پگھلنے کے لیے تھا

وہ زلف ہواؤں میں بکھرنے کے لیے تھی
اور جسم مرا دھوپ میں جلنے کے لیے تھا

جس روز تراشے گئے یہ زخم اسی روز
اک زخم مری روح میں پلنے کے لیے تھا

اس خواب کی تعبیر مجھے ملتی بھی کیسے
وہ خواب تو افسانوں میں ڈھلنے کے لیے تھا

جس راہ کے پتھر کو روشؔ کوس رہے تھے
وہ راہ کا پتھر تو سنبھلنے کے لیے تھا