پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا
وہ شخص ان آنکھوں میں پگھلنے کے لیے تھا
وہ زلف ہواؤں میں بکھرنے کے لیے تھی
اور جسم مرا دھوپ میں جلنے کے لیے تھا
جس روز تراشے گئے یہ زخم اسی روز
اک زخم مری روح میں پلنے کے لیے تھا
اس خواب کی تعبیر مجھے ملتی بھی کیسے
وہ خواب تو افسانوں میں ڈھلنے کے لیے تھا
جس راہ کے پتھر کو روشؔ کوس رہے تھے
وہ راہ کا پتھر تو سنبھلنے کے لیے تھا
غزل
پلکوں پہ ستارہ سا مچلنے کے لیے تھا
شمیم روش