EN हिंदी
پیک خیال بھی ہے عجب کیا جہاں نما | شیح شیری
paik-e-KHayal bhi hai ajab kya jahan-numa

غزل

پیک خیال بھی ہے عجب کیا جہاں نما

جارج پیش شور

;

پیک خیال بھی ہے عجب کیا جہاں نما
آیا نظر وہ پاس جو اپنے سے دور تھا

اس ماہرو پہ آنکھ کسی کی نہ پڑ سکی
جلوہ تھا طور کا کہ سراسر وہ نور تھا

دیتے نہ دل جو تم کو تو کیوں بنتی جان پر
کچھ آپ کی خطا نہ تھی اپنا قصور تھا

ذرہ کی طرح خاک میں پامال ہو گئے
وہ جن کا آسماں پہ سر پر غرور تھا