EN हिंदी
پہنچا دیا امید کو طوفان یاس تک | شیح شیری
pahuncha diya umid ko tufan-e-yas tak

غزل

پہنچا دیا امید کو طوفان یاس تک

اطہر ناسک

;

پہنچا دیا امید کو طوفان یاس تک
بجھنے نہ دی فرات نے بچوں کی پیاس تک

پہلے تو دسترس تھی شجر کے لباس تک
لیکن خزاں نے نوچ لیا سب کا ماس تک

چھڑکا گیا ہے زہر درختوں پہ اس قدر
تلخی میں ڈھل گئی ہے پھلوں کی مٹھاس تک

اس بار بھی لباس کو ترسیں گی چنّیاں
یہ رونقیں ہیں چہروں پہ کھلتی کپاس تک

کاغذ پہ اس کی شکل بناتا ہوں رات بھر
ناسکؔ نہیں ہوں جس کا میں چہرہ شناس تک