پہنچ گیا تھا وہ کچھ اتنا روشنی کے قریب
بجھا چراغ تو پلٹا نہ تیرگی کے قریب
سلگتی ریت پہ بھی اس کا حوصلہ دیکھو
ہوئی نہ پیاس کبھی خیمہ زن نمی کے قریب
بدن کے دشت میں جب دفن ہو گیا احساس
وفا پھٹکتی بھلا کیسے آدمی کے قریب
ہماری پیاس کے سورج نے ڈال کر کرنیں
کیا ہے گہرے سمندر کو تشنگی کے قریب
جو زخم دل کو رفو کر رہا تھا اشکوں سے
ہمارے بعد نہ دیکھا گیا کسی کے قریب
بشر نے چاند ستاروں کو چھو لیا لیکن
یہ آدمی نہ کبھی آیا آدمی کے قریب
ہمارے بچوں کے لب پیاس سے ہیں جھلسے ہوئے
ہماری لاش بھی رکھنا نہ تم نمی کے قریب
یہ کس کے نام سے بڑھتی ہیں دھڑکنیں دل کی
یہ کون ہے مرے احساس زندگی کے قریب

غزل
پہنچ گیا تھا وہ کچھ اتنا روشنی کے قریب
شارب مورانوی