پہلی سی چاہتوں کے وہ منظر نہیں رہے
عاشق تو بے شمار ہیں دلبر نہیں رہے
اس عہد نو میں اور تو سب کچھ ملا مگر
شرم و حیا کے قیمتی زیور نہیں رہے
یہ پھول یہ چراغ یہ تاروں کا قافلہ
سب کچھ ہے تیرے خواب کے پیکر نہیں رہ
دل کے نگر میں قید ہیں چاہت کی بلبلیں
وہ موسم بہار کے منظر نہیں رہے
لائی تھی جتنی سیپیاں سب بانجھ ہو گئیں
حیران ہوں کسی میں بھی گوہر نہیں رہے
میں نے نگارؔ سانسیں بھی کر دیں تھی جن کے نام
وہ ایک پل کو بھی مرے ہو کر نہیں رہے
غزل
پہلی سی چاہتوں کے وہ منظر نہیں رہے
نگار عظیم