پہلے تو شہر بھر میں مثال آئنے ہوئے
پھر گرد سے سراپا سوال آئنے ہوئے
چہرہ چھپائے پھرتا ہے گہرے نقاب میں
اک شخص کو تو لو کی مثال آئنے ہوئے
ہم کو سزا ملی کہ اجالے تھے آئنے
سو اپنی جاں پہ سارا وبال آئنے ہوئے
پھر یوں ہوا کہ ضبط کی صورت نہیں رہی
اور شہر بےنوا کے غزال آئنے ہوئے
جن کے سبب سے ہم ہوئے معتوب شہر میں
اک وقت آ گیا وہ خیال آئنے ہوئے
وہ درد جی اٹھا کہ گریباں تھے تار تار
وہ رت امڈ پڑی کہ نہال آئنے ہوئے

غزل
پہلے تو شہر بھر میں مثال آئنے ہوئے
خالد محمود ذکی