پہلا پتھر یاد ہمیشہ رہتا ہے
دکھ سے دل آباد ہمیشہ رہتا ہے
پاس رہیں یا دور مگر ان آنکھوں میں
موسم ابر و باد ہمیشہ رہتا ہے
قید کی خواہش اس کا دکھ بن جاتی ہے
جو پنچھی آزاد ہمیشہ رہتا ہے
ایک گل بے مہر کھلانے کی خاطر
قریۂ دل برباد ہمیشہ رہتا ہے
اس کے لیے میں کیا کیا سوانگ رچاتا ہوں
وہ پھر بھی ناشاد ہمیشہ رہتا ہے
پاؤں تھمیں تو کیسے صابرؔ اپنے ساتھ
ایک سفر ایجاد ہمیشہ رہتا ہے
غزل
پہلا پتھر یاد ہمیشہ رہتا ہے
صابر وسیم