پہچان کم ہوئی نہ شناسائی کم ہوئی
باقی ہے زخم زخم کی گہرائی کم ہوئی
سلگا ہوا ہے زیست کا صحرا افق افق
چہروں کی دل کشی گئی زیبائی کم ہوئی
دوری کا دشت جس کے لیے سازگار تھا
آنگن میں قرب کے وہ شناسائی کم ہوئی
اب شہر شہر عام ہے گویائی کا سکوت
جب سے لب سکوت کی گویائی کم ہوئی
کچھ ہو نہ ہو خموشیٔ آئینہ سے مگر
پرچھائیوں کی معرکہ آرائی کم ہوئی
ہر رنگ زندگی ہے تہہ گرد و روزگار
تصویر کی وہ رونق و رعنائی کم ہوئی
اک اجنبی دیار میں گزرے ہیں دن مگر
یہ کم نہیں خلوص کی رسوائی کم ہوئی
راہیؔ رفاقتوں کا یہ انجام دیکھ کر
سائے کے ساتھ اپنی شناسائی کم ہوئی

غزل
پہچان کم ہوئی نہ شناسائی کم ہوئی
راہی قریشی