پایا کوئی شجر نہ کوئی آسرا لگا
وہ دھوپ تھی کہ اپنا ہی سایہ خدا لگا
گھبرا کے بام و در کے سلگتے سکوت سے
جھانکا ہی تھا گلی میں کہ سنگ صدا لگا
جھاڑی جو آگ چہروں کی رنگت بدل گئی
اس کے دکھوں کا ذکر سبھی کو برا لگا
دیکھا اسے تو عکس تمنا چمک اٹھے
اس شہر سنگ میں وہ مجھے آئنا لگا
صحرا کو دیر سے تھی کسی ابر کی تلاش
پایا مجھے تو وہ مرے سینے سے آ لگا
کتنا بدل گیا ہے وہ زلفیں تراش کر
دیکھا جو دور سے تو کوئی دوسرا لگا
چھوتے ہی اس کو غنچۂ احساس کھل اٹھے
راشدؔ تھکے بدن کو وہ موج صبا لگا

غزل
پایا کوئی شجر نہ کوئی آسرا لگا
ممتاز راشد