پانیوں سے ریت پر جو آ گیا میری طرح
زندگی کی دھوپ میں جلتا رہا میری طرح
اس کے ہونٹوں سے بھی امرت کی مہک آنے لگی
غالباً زہر ہلاہل پی لیا میری طرح
آپ کو وہ اپنی رحمت سے نوازے گا ضرور
صدق دل سے مانگیے بھی تو دعا میری طرح
کوئی پردے سے نکل کر سامنے آ جائے گا
شرط لیکن یہ ہے تم بھی دیکھنا میری طرح
ساحلوں کی قید سے آزاد ہو سکتا ہے تو
اپنے دریا میں کوئی طوفاں اٹھا میری طرح
کفر و باطل کی صفوں کو چیر کر باہر نکل
نام اپنا حق پرستوں میں لکھا میری طرح
انجمن در انجمن تفریق خاص و عام ہے
ہے کوئی جو راز کہہ دے برملا میری طرح

غزل
پانیوں سے ریت پر جو آ گیا میری طرح
شفیع اللہ راز