EN हिंदी
پانی مٹ کر بھی رہ گیا پانی | شیح شیری
pani miT kar bhi rah gaya pani

غزل

پانی مٹ کر بھی رہ گیا پانی

اندر موہن مہتا کیف

;

پانی مٹ کر بھی رہ گیا پانی
ہوئے کیا بات کہہ گیا پانی

کٹ گیا بوند بوند میں پتھر
چوٹ پتھر کی سہہ گیا پانی

خواب بھی برف کے گھروندے تھے
جب کھلی آنکھ رہ گیا پانی

شور کتنا کیا تھا لہروں نے
ایک طوفاں میں بہہ گہا پانی

زندگی نام ہے روانی کا
جاتے جاتے یہ کہہ گیا پانی

ہم نظاروں کو دیکھتے ہی رہے
پل کے نیچے سے بہہ گیا پانی