EN हिंदी
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے | شیح شیری
pani aankh mein bhar kar laya ja sakta hai

غزل

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے

عباس تابش

;

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابشؔ
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے