پاگل ہوا کے دوش پہ جنس گراں نہ رکھ
اس شہر بے لحاظ میں اپنی دکاں نہ رکھ
اس کا دیا ہوا ہے جسم اس کے سپرد کر
رکھنے کی اس ہوس میں تو دونوں جہاں نہ رکھ
اس کا زوال دیکھ کے وہ سلطنت نہ چھوڑ
اس زندگی میں لمحۂ سود و زیاں نہ رکھ
وہ فصل پک چکی تھی اب اس کا بھی کیا قصور
تجھ سے کہا تھا جیب میں چنگاریاں نہ رکھ
وہ جسم ہے تو اس کو فقط جسم ہی سمجھ
پردا کسی فریب کا پھر درمیاں نہ رکھ
آئے گی ہر طرف سے ہوا دستکیں لیے
اونچا مکاں بنا کے بہت کھڑکیاں نہ رکھ
وہ جسم کھل رہا ہے گرہ در گرہ نظرؔ
یہ تیر چوک جائے گا ڈھیلی کماں نہ رکھ
غزل
پاگل ہوا کے دوش پہ جنس گراں نہ رکھ
پریم کمار نظر