نکلو حصار ذات سے تو کچھ سجھائی دے
گنبد میں بازگشت صدا ہی سنائی دے
ہر اک افق فریب نظر ہے کہ آسماں
جھک کر گلے زمین کے ملتا دکھائی دے
یا توڑ دے بہ پاس انا کاسہ خود گدا
ورنہ در بخیل کی یارب گدائی دے
مشرق میں آدمی کو اگر پھانس بھی چبھے
مغرب کا ہر مکین تڑپ کر دہائی دے
قہر خدا خداؤں کے ہیں قہر کو بہ کو
آشوب شہر میں نہ دہائی سنائی دے
رحمتؔ چراغ خانۂ درویش ہے حیات
یارب! کوئی تو چاند سا چہرہ دکھائی دے
غزل
نکلو حصار ذات سے تو کچھ سجھائی دے
رحمت قرنی