نیند ان آنکھوں میں بن کر آئے کوئی
لوری ماں کی مجھے سنا جائے کوئی
دور یہاں سے جا کر سب کچھ بھول گئے
ہم زندہ ہیں ان کو بتلائے کوئی
روز ازل سے ہم تھے اکیلے دنیا میں
کہاں سے اور کیسے اب ساتھ آئے کوئی
سچ کو میں سچ مان لوں اب یہ بہتر ہے
مجھ کو قائل کیسے کر پائے کوئی
ایسی کہانی کبھی نہیں جو گزری ہو
وہی کہانی مجھے سنا جائے کوئی
درد کو سہنا بھی عادت میں شامل ہے
درد کی کتنی حد ہے سمجھائے کوئی
اب کچھ ہی لمحوں کا سفر یہ باقی ہے
صاحبہؔ بوجھ کہاں تک سہہ پائے کوئی
غزل
نیند ان آنکھوں میں بن کر آئے کوئی
صاحبہ شہریار