EN हिंदी
نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو | شیح شیری
nihaal-e-wasl nahin sang-bar karne ko

غزل

نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو

احمد جاوید

;

نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو
بس ایک پھول ہے کافی بہار کرنے کو

کبھی تو اپنے فقیروں کی دل کشائی کر
کئی خزانے ہیں تجھ پر نثار کرنے کو

یہ ایک لمحے کی دوری بہت ہے میرے لیے
تمام عمر ترا انتظار کرنے کو

کشش کرے ہے وہ مہتاب دل کو زوروں کی
چلا یہ قطرہ بھی قلزم نثار کرنے کو

تو پھر یہ دل ہی نہ لے آؤں خوب چمکا کر
ترے جمال کا آئینہ دار کرنے کو

قبائے مرگ ہو یا رخت زندگی اے دوست
ملے ہیں دونوں مجھے تار تار کرنے کو

بہت سا کام دیا ہے مجھے ان آنکھوں نے
حوالۂ دل ناکردہ کار کرنے کو