EN हिंदी
نگاہوں سے نکل کر جو گئے ہیں | شیح شیری
nigahon se nikal kar jo gae hain

غزل

نگاہوں سے نکل کر جو گئے ہیں

مغنی تبسم

;

نگاہوں سے نکل کر جو گئے ہیں
وہ چہرے آئنوں میں کھو گئے ہیں

زمیں پر نور کی بارش تھی جن سے
ستارے آسماں میں بو گئے ہیں

کھلے تھے جو چمن میں گل کی صورت
صبا کے ساتھ رخصت ہو گئے ہیں

جلانے والے یادوں کے دیے اب
چراغ جاں بجھا کر سو گئے ہیں