نگاہوں سے میری نگاہیں بچائے
چلے آ رہے ہیں وہ طوفاں اٹھائے
لہو دل کا اشکوں میں کیوں آ نہ جائے
کہاں تک کوئی راز الفت چھپائے
اسی کی ہے دنیا اسی کا زمانہ
جو سب کچھ ہٹا کر کبھی کچھ نہ پائے
ابھی کچھ ہے باقی نشان نشیمن
کہو برق سے اور ابھی ظلم ڈھائے
چلے آئیں گے خود وہ بیتاب ہو کر
جنون محبت مرا بڑھ تو جائے
نرالے ہیں رسم و رواج محبت
وہی پار ہوتا ہے جو ڈوب جائے
رہا ایک عالم نہ اقبالؔ اپنا
کبھی رو دئے تو کبھی مسکرائے

غزل
نگاہوں سے میری نگاہیں بچائے
اقبال حسین رضوی اقبال