نگاہ اہل جہاں میں شکستہ حال ہوں میں
جواب جس کا نہیں ہے وہ اک سوال ہوں میں
بلند ہوں تو سر عرش ذوالجلال ہوں میں
جو پست ہوں تو پھر اک فرش پائمال ہوں میں
بھلا سکیں گے ابد تک نہ اہل درد مجھے
جہان عشق و محبت میں لا زوال ہوں میں
مرا مقام ہر اک دل میں ہے جداگانہ
اگر یقین نہیں ہوں تو احتمال ہوں میں
عروج و پست مرا درس ہے جہاں کے لئے
بنا ہوں بدر کبھی تو کبھی ہلال ہوں میں
چمن میں ہائے وہ اک برگ زرد کا کہنا
بہار حال میں یاد گزشتہ سال ہوں میں
مجال دید ہے صائبؔ نہ تاب نطق مجھے
کسی کے سامنے تصویر کی مثال ہوں میں

غزل
نگاہ اہل جہاں میں شکستہ حال ہوں میں
محمد صدیق صائب ٹونکی