نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا
سلگتی دھوپ کی سرحد پہ گھر کوئی بھی نہ تھا
ہر ایک جسم تھا اک پوسٹر شعاعوں کا
سلگتے دشت میں ٹھنڈا شجر کوئی بھی نہ تھا
چمکتے دن میں تو سب لوگ ساتھ تھے لیکن
اداس شب میں مرا ہم سفر کوئی بھی نہ تھا
ہر ایک شہر میں تھا اضطراب کا آسیب
جہاں سکون ہو ایسا نگر کوئی بھی نہ تھا
سبھی کو فن جراحت سے واقفیت تھی
ہماری طرح وہاں بے ہنر کوئی بھی نہ تھا
سب اپنے کمروں میں مستی کی نیند سوئے تھے
سیاہ شب میں سر رہ گزر کوئی بھی نہ تھا
جو تلخ شام کے سایوں کو قتل کر دیتا
تمام شہر میں اتنا نڈر کوئی بھی نہ تھا
مرے زوال کی سب کو تھی آرزو اسعدؔ
مرے کمال سے خوش دل مگر کوئی بھی نہ تھا

غزل
نظر اٹھا کے جو دیکھا ادھر کوئی بھی نہ تھا
اسعد بدایونی