نظر تو آ کبھی آنکھوں کی روشنی بن کر
زمین خشک کو سیراب کر نمی بن کر
رچا ہوا ہے تری کم نگاہیوں کا کرم
نشے کی طرح مرے دل میں سر خوشی بن کر
کبھی تو آ ستم جان گسل ہی دینے کو
کبھی گزر انہی راہوں سے اجنبی بن کر
خوشا کہ اور ملا غم کا تازیانہ ہمیں
خوشا وہ درد جو چھایا ہے نغمگی بن کر
ہوئی نہ ان سے وفا تم سے کیا ہوا ناہیدؔ
ابھی تلک جیے جاتی ہو باؤلی بن کر
غزل
نظر تو آ کبھی آنکھوں کی روشنی بن کر
کشور ناہید

