EN हिंदी
نظر کی وسعتوں میں کل جہاں تھا | شیح شیری
nazar ki wusaton mein kul jahan tha

غزل

نظر کی وسعتوں میں کل جہاں تھا

عبدالمنان صمدی

;

نظر کی وسعتوں میں کل جہاں تھا
زمیں سے دور کتنا آسماں تھا

مری کشتی بھنور میں ڈوب جاتی
ہوا کی مد پہ لیکن بادباں تھا

میں اس کی حرف گیری کر نا پایا
وہ میری زندگی کا راز داں تھا

تجھے پا کر تجھے کھویا ہے ہم نے
یہی تو زندگی کا امتحاں تھا

وہی گم ہو گیا رستے میں شاید
جو رہبر تھا جو میر کارواں تھا