نظر بہار نہ دیکھے تو بے قرار نہ ہو
خزاں سکون سے گزرے اگر بہار نہ ہو
نگاہ دل میں جو رنگینیٔ بہار نہ ہو
گناہ گار تماشا گناہ گار نہ ہو
فریب نکہت و رنگ آگہی شکار نہ ہو
کرشمہ کار چمن میں اگر بہار نہ ہو
خزاں کے جور مسلسل پہ بے قرار نہ ہو
بہار دیکھ مگر خوگر بہار نہ ہو
بجا ہے غنچے کا جوش نمو سے کھل اٹھنا
جو گل پہ آئی وہ گزری ہوئی بہار نہ ہو
مرا شعور بہاراں خزاں پہ غش ہو سحابؔ
اگر وہ نقص بہاراں کی یادگار نہ ہو

غزل
نظر بہار نہ دیکھے تو بے قرار نہ ہو
شیو دیال سحاب