نظر آسودہ کام روشنی ہے
مرے آگے سراب آگہی ہے
زمانوں کو ملا ہے سوز اظہار
وہ ساعت جب خموشی بول اٹھی ہے
ہنسی سی اک لب ذوق نظر پر
شفق زار تحیر بن گئی ہے
زمانے سبز و سرخ و زرد گزرے
زمیں لیکن وہی خاکستری ہے
پگھلتا جا رہا ہے سارا منظر
نظر تحلیل ہوتی جا رہی ہے
دھندلکوں کو اندھیرے چاٹ لیں گے
کہ آگے عہد مرگ روشنی ہے
بکھرتے کارواں یہ ارتقا کے
سراسیمہ سا ذوق زندگی ہے
میں دیکھوں تو دکھا دوں گا تمہیں سازؔ
ابھی مجھ میں بصیرت کی کمی ہے
غزل
نظر آسودہ کام روشنی ہے
عبد الاحد ساز