نوید وصل یار آئے نہ آئے
برابر ہے بہار آئے نہ آئے
تجھے کرنا ہے جو کچھ آج کر لے
کہ پھر یہ روزگار آئے نہ آئے
کئے جا درد دل اے نامرادی
کسی کو اعتبار آئے نہ آئے
کوئی پرساں نہ ہو جب حال بد کا
تمنا سوگوار آئے نہ آئے
جو وہ بالفرض ہو پرسش پہ مائل
دل بسمل قرار آئے نہ آئے
ستم سے جب تلافی ہو ستم کی
تمہیں کہہ دو کہ پیار آئے نہ آئے
اثرؔ ہے اور لذت بے خودی کی
وہ جان انتظار آئے نہ آئے
غزل
نوید وصل یار آئے نہ آئے
اثر لکھنوی