EN हिंदी
نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا | شیح شیری
nami thi aankh mein lekin ek etimad bhi tha

غزل

نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا

نرجس افروز زیدی

;

نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا
مجھے تو حوصلہ جینے کا اس کے بعد بھی تھا

بجھے ہوئے در و دیوار جانتے ہوں گے
کبھی یہاں ترے جلووں کا انعقاد بھی تھا

وہ ایک اسم طوالت جو شب کی کاٹ سکے
وہ اسم عالم وحشت میں مجھ کو یاد بھی تھا

خزاں نصیب سہی آج شاخسار حیات
ہوا کا آنا کبھی صحن دل میں سعد بھی تھا

ستارہ دیکھ کے نکلی تھی میں سفر کے لئے
مگر ستارے کو تقدیر سے عناد بھی تھا