نئی زمین نیا آسماں بناتے ہیں
ہم اپنے واسطے اپنا جہاں بناتے ہیں
بجھی بجھی سی وہ تصویر جاں بناتے ہیں
کہیں چراغ کہیں پر دھواں بناتے ہیں
بیان کرتے ہیں ہم داستان لفظوں میں
ذرا سی بات کی وہ داستاں بناتے ہیں
چمکتی دھوپ میں کرنیں سمیٹتے ہیں ہم
انہیں کو تان کے پھر سائباں بناتے ہیں
سکون دل کے لئے ہم بھی روز کاغذ کے
کبھی تو پھول کبھی تتلیاں بناتے ہیں
جو مد و جزر سے واقف نہیں ہیں دریا کے
وہ ساحلوں پہ ہی اکثر مکاں بناتے ہیں
بناتے رہتے ہیں جاویدؔ کشتیاں لیکن
ہم ان کے واسطے پھر بادباں بناتے ہیں
غزل
نئی زمین نیا آسماں بناتے ہیں
خواجہ جاوید اختر

