نہیں مٹتیں تری یادیں ندی میں خط بہانے سے
یہ اکثر لوٹ آتی ہیں کسی دل کش بہانے سے
بھلا پایا نہیں میں دور ماضی کے حسیں لمحے
کبھی تو یاد بھی کر لے تعلق یہ پرانے سے
نمک پاشی زمانے نے مرے زخموں پہ کی پیہم
مگر میں باز کب آیا ہوں پھر بھی مسکرانے سے
تمہیں جس کے لئے ہم نے چنا وہ کام بھی کرنا
ملے تم کو اگر فرصت ہمارا گھر جلانے سے
مقابل آئنے کے آ گیا ہے بھول سے شاید
مجھے لگتا ہے کچھ ایسا ہی اس کے تلملانے سے
قفس کو توڑنے کی اب کے اس نے بھی تو ٹھانی ہے
یہی پیغام ملتا ہے پروں کو پھڑپھڑانے سے
مجھے معلوم ہے ہرگز پلٹ کر آ نہیں سکتا
گزارش ہے مگر میری اثرؔ گزرے زمانے سے

غزل
نہیں مٹتیں تری یادیں ندی میں خط بہانے سے
پرمود شرما اثر