EN हिंदी
نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا | شیح شیری
nahin malum ab ki sal mai-KHane pe kya guzra

غزل

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا

انعام اللہ خاں یقینؔ

;

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا
ہمارے توبہ کر لینے سے پیمانے پہ کیا گزرا

برہمن سر کو اپنے پیٹتا تھا دیر کے آگے
خدا جانے تری صورت سے بت خانے پہ کیا گزرا

مجھے زنجیر کر رکھا ہے ان شہری غزالوں نے
نہیں معلوم میرے بعد ویرانے پہ کیا گزرا

ہوئے ہیں چور میرے استخواں پتھر سے ٹکرا کے
نہ پوچھا یہ کبھی تو نے کہ دیوانہ پہ کیا گزرا

یقیںؔ کب یار میرے سوز دل کی داد کو پہنچے
کہاں ہے شمع کو پروا کہ پروانہ پہ کیا گزرا