EN हिंदी
نہیں کچھ فیض حاصل تھا زمانے سے خفا ہو کر | شیح شیری
nahin kuchh faiz hasil tha zamane se KHafa ho kar

غزل

نہیں کچھ فیض حاصل تھا زمانے سے خفا ہو کر

عرفان احمد میر

;

نہیں کچھ فیض حاصل تھا زمانے سے خفا ہو کر
میں دیوانہ بنا ہوں خود ہی اس بت پر فنا ہو کر

میری دنیا میں اشک و خوں کا تانتا رہا ہر دم
کبھی تیری وفاؤں میں کبھی تم سے جدا ہو کر

تصور میں بھی پندار وفا کا لطف حاصل تھا
تمہاری زلف قاتل پیشہ کے خم میں فنا ہو کر

گنوائی اشکوں نے تاثیر جو خون جگر کی تھی
گرا جب آب گوہر بھی لباس تن پہ وا ہو کر

یہی دنیا کی تنگ بینی سے ملتا ہے وفاؤں کو
جدا ہو جاتے ہیں عاشق صنم سے بے وفا ہو کر

وہی بے سود سی بندش زمانے کے اصولوں کی
وفا کو قید کر دیتی ہیں زنجیریں سزا ہو کر

میں کن مجبوریوں کا اب کروں ماتم بتا بالغؔ
جو پایا بے خودی میں وہ گنوایا آشنا ہو کر