EN हिंदी
نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ | شیح شیری
nahin chhupta tere itab ka rang

غزل

نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ

ریاضؔ خیرآبادی

;

نہیں چھپتا ترے عتاب کا رنگ
کہ بدلنے لگا نقاب کا رنگ

بھر گیا آنکھ میں شراب کا رنگ
ظالم اف رے ترا شباب کا رنگ

اب تو لالے ہیں جان مضطر کے
اور ہی کچھ ہے اضطراب کا رنگ

تیرے آتے ہی ہو گئی پانی
اڑ گیا محتسب شراب کا رنگ

رنگ لائے گا دیدۂ پر آب
دیکھنا دیدۂ پر آب کا رنگ

داغ دامن نے بھی کیا پیدا
حشر کے روز آفتاب کا رنگ

شیخ جانا ہے تجھ کو جنت میں
دیکھتا جا مری شراب کا رنگ

صدقے میں اپنی پارسائی کے
کہ بڑھاپے میں ہے شباب کا رنگ

خون سے جیسے واسطہ ہی نہیں
صاف ہے خنجر پر آب کا رنگ

ریش واعظ سفید ہے کتنی
نہیں چڑھتا کبھی خضاب کا رنگ

رنگ کا اس کے پوچھنا کیا ہے
جس کا سایہ بھی دے گلاب کا رنگ

سچ ہے اے حضرت ریاضؔ یہ بات
کہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگ