نہیں اب با وفا کوئی نہیں ہے
مگر شکوہ گلہ کوئی نہیں ہے
بھٹکتا ہی پھرے ہے قافلہ وہ
وہ جس کا رہنما کوئی نہیں ہے
یہ نگری ہے فقط گونگوں کی نگری
کسی سے بولتا کوئی نہیں ہے
یہ کیسے لوگ ہیں بستی ہے کیسی
کسی کو جانتا کوئی نہیں ہے
چلاتے ہیں یہاں بس اپنی اپنی
کسی کی مانتا کوئی نہیں ہے
بہت ہی دور ہیں ہم تم سے لیکن
دلوں میں فاصلہ کوئی نہیں ہے
یہاں بس تو ہی تو ہے اور میں ہوں
ترے میرے سوا کوئی نہیں ہے
غریب شہر ہیں اس شہر میں ہم
ہمارا آشنا کوئی نہیں ہے
دریچوں سے مری آہٹ کو سن کر
نظیرؔ اب جھانکتا کوئی نہیں ہے
غزل
نہیں اب با وفا کوئی نہیں ہے
نذیر میرٹھی