نغمہ و عشق سے ہیں سبحہ و زنار ملے
ایک آواز پہ دو ساز کے ہیں تار ملے
میں تو آشفتۂ دل اور دل آشفتۂ زلف
خوب ہم دونوں گرفتار گرفتار ملے
مصلحت ہے کہ تری چشم کو ہے دل سے حجاب
رنج ہو اور جو بیمار سے بیمار ملے
دن توقع ہی توقع میں کہاں تک گزریں
مر گئے ہجر میں بس اب تو کہیں یار ملے
اپنی ہی وضع پہ لاویں گے خدا خیر کرے
بے طرح رہتے ہیں اس شوخ سے عیار ملے
درد و رنج الم و حسرت و داغ و غم و رشک
مجھ کو کیا کیا نہ ترے عشق میں آزار ملے
کیا بڑی عمر ہے دل میں ابھی گزرا تھا مرے
کہ مزا ہووے جو ایسے میں وہ دل دار ملے
بارے تو آن ہی پہنچا مرا جی شاد ہوا
میں نے اب جانا کہ ہیں دونوں کے اسرار ملے
موند لے جب تو ان آنکھوں کو جہاں سے تو حسنؔ
دل کی آنکھوں سے تجھے یار کا دیدار ملے
غزل
نغمہ و عشق سے ہیں سبحہ و زنار ملے
میر حسن