نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے
میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لیے
ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لیے
میں بھول سکتا نہیں حسرت نظر اس کی
وہ ایک شخص جو گزرا ہے اضطراب لیے
اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے
اب آ بھی جاؤ نگاہوں میں ماہتاب لیے
یہ چلچلاتی ہوئی دھوپ جل رہا ہے بدن
گزر رہی ہے یوں ہی حسرت سحاب لیے
غزل
نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لیے
کیف عظیم آبادی