نام اس اللہ کے بندے کا بھی رسوائی میں ہے
جو سمندر کی طرح سے اپنی گہرائی میں ہے
شاخ سے پتہ بھی اڑتا ہے پرندے کی طرح
زندگی کی کوئی چنگاری تمنائی میں ہے
دھوپ کا دریا امڈ آتا ہے جب چڑھتا ہے دن
کوئی ایسی لہر کیا اس کی بھی انگڑائی میں ہے
جب ہواؤں میں اڑے گا سب پتہ لگ جائے گا
جھیل نیلے آسماں کی کتنی گہرائی میں ہے
چھوڑ جاتی ہے ہوا بھی نقش اپنے خاک پر
سوچتا ہوں تو کہاں پر جلوہ آرائی میں ہے
ڈوب جاتے ہیں مناظر ڈوبتے سورج کے ساتھ
سچ کہا کرتا تھا وہ بھائی کی جاں بھائی میں ہے
لہلہاتی خاک کو دیکھا تو کیا دیکھا میاں
اس کو دیکھا چاہئے جو اس کی رعنائی میں ہے
کوئی دروازے کی دستک کان میں پڑتی نہیں
بت بنا بیٹھا ہوں گھر میں دھیان شہنائی میں ہے
گھیرے رہتا ہے مجھے لوگوں کی آوازوں کا شور
وہ اکیلا دیکھ کر کہتے ہیں تنہائی میں ہے
اڑتے طیارے کی کھڑکی سے ذرا سا جھانک لے
اتنے ہنگاموں بھری دنیا بھی تنہائی میں ہے
ہم کسی شیشے کو اپنے منہ سے پتھر کیوں کہیں
جس کا جو کردار ہے وہ اس کی گویائی میں ہے
دوستو کیا پوچھتے ہو حال اس کے گاؤں کا
آئنہ لپٹا ہوا تالاب کی کائی میں ہے
اٹھ رہی تھیں دور تک پانی کی دیواریں خلیلؔ
ہم یہ سمجھے نقص کوئی اپنی بینائی میں ہے
غزل
نام اس اللہ کے بندے کا بھی رسوائی میں ہے
خلیل رامپوری