نالے دم لیتے نہیں یارب فغاں رکتی نہیں
گو قفس میں بند ہوں لیکن زباں رکتی نہیں
ڈر رہا ہوں ٹوٹ جائیں گی قفس کی تیلیاں
کیا مصیبت ہے ہوائے بوستاں رکتی نہیں
دیدنی ہیں ملزم ہستی کی طوفاں خیزیاں
ڈوبنے سے کشتئ عمر رواں رکتی نہیں
اڑ کے ہم پہنچیں گے منزل پر ہوائے شوق میں
کارواں رک جائے گرد کارواں رکتی نہیں
دقتیں حائل ہیں فن شعر میں لیکن عزیزؔ
ایک آندھی ہے مری طبع رواں رکتی نہیں
غزل
نالے دم لیتے نہیں یارب فغاں رکتی نہیں
عزیز حیدرآبادی