نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
تیر سا ہر دل میں اثر کر گیا
دل نہ رہا آپ میں اور میں بہ خود
میری طرف جب وہ نظر کر گیا
کھول کے زلفوں کے تئیں چہرہ پر
یار بہم شام و سحر کر گیا
اہل ہوس رات گلی میں تری
جانے سے اے شوخ حذر کر گیا
اور جو مجھ سا تھا کوئی جاں فشاں
در پہ ترے جی سے گزر کر گیا
دیکھیو ثابت قدمی قیس کی
عشق میں کیا عمر بسر کر گیا
راہ خطرناک محبت کو طے
با قدم دیدۂ تر کر گیا
کوئی تھا کوچے میں صنم کے جو آج
گریۂ خوں تا بہ کمر کر گیا
عقل پہ نازاں ہوں جہاں دارؔ کی
دل نہ دیا اس کو ہنر کر گیا

غزل
نالہ جدھر میرا گزر کر گیا
مرزا جواں بخت جہاں دار