نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے بغیر
ہوتا نہیں وصال یار سوز دوام کے بغیر
تو نے اگر کیا نہ یاد شق رہے گا نامراد
کیسے کٹے گی زندگی تیرے پیام کے بغیر
ہے یہ مرا ہی حوصلہ کرتا ہوں روز سامنا
گردش صبح و شام کا گردش جام کے بغیر
عرصہ ہوا وہ فتنہ گر آیا نہیں کبھی ادھر
سونی پڑی ہے رہگزر حسن خرام کے بغیر
کیف نشاط دم بدم چومتا ہے مرے قدم
چلتا نہیں ہوں ایک گام آپ کے نام کے بغیر
جب بھی ملے وہ ناگہاں جھوم اٹھے ہیں قلب و جاں
ملنے میں لطف ہے اگر ملنا ہو کام کے بغیر
میرے جنوں کے فیض سے گرمی شوق آ گئی
سرد تھی محفل طرب میرے کلام کے بغیر
غزل
نالۂ صبح کے بغیر گریۂ شام کے بغیر
کرشن موہن