نا مناسب ہے خفا نالوں کو سن کر ہونا
ابھی آیا ہی نہیں تم کو ستم گر ہونا
ہے ستم کا یہ کرم آہ نہیں کرتے ہم
ورنہ آسان نہ تھا صبر کا خوگر ہونا
نہیں رہتی کوئی روک اہل جنوں کے آگے
کوئی دیوار ہو شق ہو کے اسے در ہونا
رو پڑا میں بھی پسیجا جو وہ بت نالوں پر
قابل رحم ہے انسان کا پتھر ہونا
آ کے سمجھائے وہ تسکین کا پہلو ہم کو
مان لیں گے دل بیتاب کا پتھر ہونا
گور میں دفن کیا جب نہ رکے زنداں میں
کس طرح دیکھتے دیوانوں کا بے گھر ہونا
قصۂ طور و کلیم آپ سناتے ہیں فضول
نہیں ممکن جو تجلی کا مکرر ہونا
چھوڑ کر دائرۂ حق کو نہ جائے راغبؔ
کفر ہے سلسلۂ شیخ سے باہر ہونا

غزل
نا مناسب ہے خفا نالوں کو سن کر ہونا
راغب بدایونی