نہ سہی ہم پہ عنایت نہیں پیمانوں کی
کھڑکیاں کھل گئیں آنکھوں سے تو مے خانوں کی
آ نہیں سکتا سمجھ میں کبھی فرزانوں کی
سرخ رو کیسے جبینیں ہوئیں دیوانوں کی
زلف بکھرائے سر شام پریشان ہیں وہ
قسمتیں اوج پہ ہیں چاک گریبانوں کی
داستاں کوہ کن و قیس کی فرسودہ ہوئی
سرخیاں ہم نے بدل ڈالی ہیں افسانوں کی
آنکھیں تو بھیگ چکیں اور نہ پیار آ جائے
اور روداد سنیں آپ نہ دیوانوں کی
میکدے آنے سے پہلے کا زمانہ توبہ
خاک چھانی ہے حرم اور صنم خانوں کی
زخم دل کو کوئی مرہم بھی نہ راس آئے گا
ہر گل زخم میں لذت ہے نمک دانوں کی
جانے کب نکلے مرادوں کی دلہن کی ڈولی
دل میں بارات ہے ٹھہری ہوئی ارمانوں کی
زخم پر ہنستے ہیں اشکوں کو گہر کہتے ہیں
عقل ماری گئی اس دور میں انسانوں کی
کتنے مومن نظر آتے ہیں صنم خانوں میں
ایک کافر نہیں بستی میں مسلمانوں کی
جتنی تضحیک ترے شہر میں اپنوں کی ہوئی
اتنی توہین نہ ہوگی کہیں بیگانوں کی
رات بڑھ بڑھ کے جو شمع پہ ہوئے تھے صدقے
صبح تک خاک نہ دیکھی گئی پروانوں کی
حرم و دیر کی بستی میں ہے تمییز و نفاق
کوئی تفریق ملل دیکھی نہ دیوانوں کی
لوگ کیوں شہر خموشاں کو کھنچے جاتے ہیں
جانے کیا جان ہے اس بستی میں بے جانوں کی
رخ بدلتے ہیں دوراہے پہ کھڑے ہیں سالار
سعیٔ ناکام تو دیکھے کوئی نادانوں کی
ہاتھا چھانٹی ہے عجب اور عجب لوٹ کھسوٹ
نیتیں اور ہیں شاید کہ نگہبانوں کی
پوچھے گلزارؔ سے ہے وہ بہ زبان سوسن
تم کہاں بزم میں آئے ہو زباں دانوں کی
غزل
نہ سہی ہم پہ عنایت نہیں پیمانوں کی
گلزار دہلوی