نہ رہبری کا کوئی سلسلہ نظر آئے
چلو وہ راہ جو بے نقش پا نظر آئے
اڑا گئے ہیں بہت دھول جانے والے لوگ
چھٹے غبار تو کچھ راستہ نظر آئے
بس ایک لمس کا احساس کر گیا بے چین
مہک ہی تیری نہ دست ہوا نظر آئے
نگاہ چاہیے بس اہل دل فقیروں کی
برا بھی دیکھوں تو مجھ کو بھلا نظر آئے
ہمیں یہ شرم کہ ہم سے تو بندگی نہ ہوئی
وہ چاہتا ہے کہ مثل خدا نظر آئے
جو اپنے آپ سے آگے نہ دیکھ سکتا ہو
ہمارا حال بھلا اس کو کیا نظر آئے
قصوروار نہ ہو کر بھی تم مٹاؤ اسے
انیسؔ یار کوئی جب خفا نظر آئے
غزل
نہ رہبری کا کوئی سلسلہ نظر آئے
انیس دہلوی