نہ پیام چاہتے ہیں نہ کلام چاہتے ہیں
مری رات کے اندھیرے ترا نام چاہتے ہیں
جو جگر کو خاک کر دے جو دماغ پھونک ڈالے
مرے پیاسے ہونٹ ایسا کوئی جام چاہتے ہیں
وہ ہو شغل بادہ نوشی کہ طواف کوئے جاناں
غم زندگی کے مارے کوئی کام چاہتے ہیں
ہمیں مٹ کے بھی یہ حسرت کہ بھٹکتے اس گلی میں
وہ ہیں کیسے لوگ یا رب جو قیام چاہتے ہیں
تری یاد تیری آہٹ ترا چہرہ تیرا وعدہ
کوئی شمع ہو مگر ہم سر شام چاہتے ہیں
ہم اسی لیے ہیں ارشدؔ ابھی تشنہ مسرت
کہ جو ان لبوں سے چھلکے وہی جام چاہتے ہیں
غزل
نہ پیام چاہتے ہیں نہ کلام چاہتے ہیں
ارشد صدیقی