EN हिंदी
نہ میں یقین میں رکھوں نہ تو گمان میں رکھ | شیح شیری
na mein yaqin mein rakhkhun na to guman mein rakh

غزل

نہ میں یقین میں رکھوں نہ تو گمان میں رکھ

فردوس گیاوی

;

نہ میں یقین میں رکھوں نہ تو گمان میں رکھ
ہے سب کی بات تو پھر سب کے درمیان میں رکھ

وہ دھوپ میں جو رہے گا تو روپ کھو دے گا
چھپا لے سینے میں پلکوں کے سائبان میں رکھ

مرے بدن کو تو اپنے بدن کی آنچ نہ دے
جو ہو سکے تو مری جان اپنی جان میں رکھ

نہ بیٹھنے دے کبھی عزم کے پرندے کو
اڑان بھول نہ جائے سدا اڑان میں رکھ

محبتیں نہیں ملتیں محبتوں کے بغیر
اسے نہ بھول تو فردوسؔ اپنے دھیان میں رکھ